//////////////////

UNDER CONSTRUCTION

LightBlog
IslamicHistory لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
IslamicHistory لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 17 جنوری، 2021

مسلمان کےمسلمان پرحقوق

جنوری 17, 2021 0




مسلمان کےمسلمان پرحقوق

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایک مسلمان کےدوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:

1۔سلام کا جواب دینا

2۔دعوت قبول کرنا

3۔جنازوں کے پیچھے چلنا

4۔مریض کی بیمار پرسی کرنا

5۔اورچھینکنے والے کی چھینک کا جوب دینا، بشرطیکہ وہ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ) کہے

متفق علیہ


جمعرات، 4 جون، 2020

مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات - Historical places of Makkah

جون 04, 2020 0

مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات

Makkah and its holy places



سعودی عرب کی وادیٰ حجاز میں واقع شہر مکہ مکرمہ روئے زمین پر موجود سب سےزیادہ مقدس ،  معزّز ترین اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔دنیا بھر سے مسلمان   سارا سال  عمرہ اور حج بیت اللہ کی ادائیگی کے لیے اس شہر کارخ کرتے ہیں اور ساتھ ہیمکہ مکرمہ  کے تاریخی مقامات کی زیارت کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس بلاگ میں میں آپ کو مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات کے کچھ تفصیلات بتاؤں گا۔

اس مقدس شہر کو تین جلیل القدر نبیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت حضورپاکﷺ سے نسبت کا شرف حاصل ہے۔
نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور بعثت کا شرف عظیم بھی اس شہرکو حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی 53 بہاریں اسی شہر میں گزاریں۔۔

مکہ مکرمہ کی عظمت اور تاریخی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ خالق کائنات نے اس پاکیزہ شہر کو اپنے مقدس گھر خانہ کعبہ کے لیے منتخب فرمایا اور پھر یہاں حج کرنے کا حکم دیا۔

اللہ تعالی قران پاک میں فرماتا ہے۔
oوَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
(البقرة، 2 : 125)
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں او راعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔

مسلمان روحانی مرکز ہونے کے ناتے اس مقدس سرزمین سے دلی اورجذباتی لگاؤرکھتے ہیں اورزندگی میں کم از کم ایک بار حج بیت اللہ کی شدید خواہش رکھتے ہیں اورجب بلاوہ آ جائےتواہل ایمان دنیاوی زیب و زینت چھوڑ کرفقط سفید احرام میں ملبوس عاجزی وانکساری کی تصویر بن  کر اس ارض پاک کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں ۔ہر سال دنیا بھرسے  لاکھوں مسلمان رنگ و نسل کی تفریق کےبغیر حج بیت اللہ ادا کرنےکی سعادت حاصل کرتے ہیں جواسلام کے بنیادی ارکان میں شامل اہم ترین عبادت ہے۔

مکہ مکرمہ میں اﷲتعالیٰ کی واضح اور کھلی نشانیاں آج بھی موجود ہیں ۔

خانہ کعبہ
خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔دنیاکے تمام مسلمان دن میں پانچ با راس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ جبکہ خانہ کعبہ میں ادا کی جانے والی ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز وں کا اجر و ثواب رکھتی ہے۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے
میری مسجد میں نماز ادا کرنامسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد کی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے۔ اور مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا کسی دوسری مسجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
صحيح ابن ماجه:1163

صفا و مروہ 
صفا مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کرتی رہیں۔اللہ تعالی کو آپ کی یہ جستجو اتنی پسند آئی کہ اسے حج وو عمرہ کا لازمی جزو بنا دیا۔حرم کی توسیع کے بعد اب یہ دونوں پہاڑیاں مسجد حرام کا حصہ بن گئی ہیں۔
صفا پہاڑی کا کعبہ سے فاصلہ  100 میٹر/328 فٹ جبکہ مروہ پہاڑی کا  فاصلہ  330 میٹر/1083 فٹ ہے۔صفا و مروہ کادرمیانی فاصلہ450 میٹر /1476فٹ ہے۔ 

حجاج کرام صفا و مروہ کے درمیان سعی  میں سات چکر لگاتے ہیں۔صفا سے مروہ تک جانے کو ایک چکر کہتے ہیں اور پھر مروہ سے صفا تک آنے کو دوسرا چکر۔  اسی طرح ساتواں چکر مروہ پرختم ہو گایوںسعی کا مجموعی فاصلہ3۔15  بنتاہے۔


 آب زم زم کا کنواں
یہیں آب زم زم کا کنواں ہے جس کا پانی سارے جہاں کے پانیوں سے افضل اور مبارک ہے۔آب زمزم میں امراض سے شفا یابی کی قوت پائی جاتی ہے۔ ، یہ جسم سے زہریلے موادکوخارج کرتے ہوئےقوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے ، اس میں کیلشیم اور میگیشیم کی مطلوبہ مقدار موجودہوتی ہے۔ فلورائڈز کی موجودگی کی وجہ سے قدرتی طور پر یہ جراثیم کُش ہے۔
یعنی سرخ خلیے بڑھاتا ہے۔ (RBCs) یعنی سفید خلیے اور(WBCs) خون میں
آب زم زمکاکنواں کعبہ شریف سے 20 میٹر دور ی پر واقع ہے جبکہ اس کی  گہرائی 30 میٹر ہے۔



حجر اسود
حجر اسود جنت کا وہ پتھر ہے جو کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار میں 1.10میٹر کی بلندی پرنصب ہے۔اسے چومنا یا ہاہاتھ لگانا ہر مسلمان اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے ۔ یہ جنتی پتھر حضرت جبرائیل نے اسوقت لا کر دیا تھا۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ اسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا ۔
606 ءمیں جب رسول اللہ ﷺکی عمر35 سال تھی قریش نے خانہ کعبہ کی دوبارہ  تعمیر کی ۔ جب حجر اسود کو دیوار کعبہ میں نصب کرنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑے کی نوبت آ گئی۔ اس موقع پررسول اللہ ﷺنے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں حجر اسود کو رکھا جانا تھا تو آپ ﷺنے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔

دوران طواف ہر چکر میں حجراسود کو بوسہ دینا لازمی ہےلیکن اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے استلام کیاجاسکتا ہے۔


مقام ابراہیم
مقام ابراہیم وہ پتھر ہےجس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھائی تھیں اوراس پر آپ کے قدموں کے نشانات پڑگئے تھے۔یہ پتھرآج بھی خانہ کعبہ کے مشرقی  جانب تقریبا سوا 13 میٹر کے فاصلے پر پیتل کےخول میں  موجود ہےاور ہر طواف کے 
بعد حجاج کے لیےیہاں دو نوافل پڑھنا لازمی ہیں۔


ملتزم 
ملتزم حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان مشرقی دیوار کا تقریباً دو میٹر طویل حصہ ہے۔بیت اللہ کے وہ مقامات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں ملتزم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حجاج یہاں پر آ کر اپنا سينہ ، چہرہ ، بازو اور ہتھيلياں رکھ کر اللہ تعالی کے حضور گڑگڑا کر دعائیں  کرتے ہیں۔


جبل نور 
مقدس اور مبارک پہاڑ جبل نور اسی شہر میں واقع ہے اس پہاڑ کی چوٹی پرموجود غار حرا میں رسول اللہ ﷺا ِعلانِ نبوت سے قبل ذِکروفِکر اور عِبادت میں مشغول رہا کرتے ۔

اس غار میں 21 رمضان المبارک بروز پیر بمطابق  10 اگست 610؁ عیسوی کو جب آپ ﷺکی عمرمبار ک 40 سال 6 ماہ اور 12 دن ہو ئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر  پہلی وحی لے کرنزول ہوئےجس کے ذریعے اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کو نبی آخر الزماں 
مبعوث فرمایا۔

جبل نور شمال مشرق میں مسجد حرام سے  ساڑھےتین کلومیٹرکے فاصلےپر سطح سمندر سے 642میٹر بلند ی پرواقع ہے۔جبکہ غار حرا3.7میٹر /12 فٹ لمبا اور 1.6میٹر / 5.2انچ چوڑا ہے۔ 

غار حراجبلِ نور کےقبلہ رُخ پر زمین کی سطح سے639 میٹر /2100 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔غار حرا تک پہنچنے کے لیے 1750 سیڑھیاں عبور کرنی پڑتی ہیں۔


جنت المعلی
دنیا کا دوسرا مقدس ترین اور تاریخی قبرستان 'جنت المعلی'اس شہرمیں ہے ۔ جہاں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ داروں ،صحابہ کرام ،تابعین ، تبع تابعین ،اولیاء اورصالحین کے مزارات مقدسہ ہیں۔ یہ قبرستان بیت اللہ شریف کے مغربی جانب تقریبا ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

مکہ مکرمہ اور اللہ تعالی کی قسم
مکہ مکرمہ کی عظمت اور فضلیت کااندازہ اس سےبھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے  قرآن پاک کی کئی آیات میں اس مقدس شہرکا ذکر آیا ہے ۔جبکہ دو  مقامات پر اس مقدس شہر کی اللہ تعالی نےقسم کھائی ہے۔

سورۃالبلد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَآ اُقْسِمُ بِـهٰذَا الْبَلَدِ (1)  وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِ (2) 
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں، (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ ﷺ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔‘‘

سورۃ التین میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ (1) وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ (2) وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ (3)
قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی


محل وقوع
مکہ مکرمہ سطح سمندر سے قریباً 300میٹر بلند ی پر بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر دوروادی فاران میں واقع ہے جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ 430کلومیٹر جنوب کی جانب ہے، جبکہ یہ جدہ ائر پورٹ سے مشرق کی طرف 73کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔اس کے مغربی جانب جبل قُعیقعان، جنوب میں جبل کُدَیّ  جبکہ جنوب مشرق میں جبل ثور واقع ہیں۔مکہ مکرمہ کے شمال مغرب میں جبل اَلحَجُون واقع ہے جس کی کداَئی نامی گھاٹی کی طرف سےنبیﷺ فتح مکہ کے وقت شہر میں داخل ہوئے۔شمال مشرق میں جبل نورسطح سمندر سے 642میٹر بلند ی پر واقع ہے۔ مشرق میں مسجد الحرام کے قریب ترین420میٹر بلند جبل ابو قبیس اور اس کے پیچھے کوہ خندمہ موجودہیں۔

مکہ کے مشرق میں شعب علی جسےشعب ابی طالب بھی کیا جاتاہے موجودہے۔یہ ’’عقبہ‘‘ کے راستے مکہ سے ملی ہوئی ہے۔ اسے دورِ جاہلیت میں شعب بنی ہاشم کہا جاتا تھا۔ یہ گھاٹی عہدِ نبوی میں شعب ابی طالب اور آج کل شعبِ علی کہلاتی ہے۔وادیٔ مکہ کے جنوبی علاقے کو بطحاقریش یا صرف بطحا کہا جاتا ہے۔ حرم سے نیچے کی نشیبی آبادی مِسفلہ جبکہ بالائی علاقے کو معلاۃ یا المعلیٰ کہا جاتا ہے۔



مکہ مکرمہ کا اصل نام
مکہ مکرمہ کا اصل نام "مکہ" ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آتاہے
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيراً
سورۃ فتح آیت24
 اور وہ وہی ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو روک دیا تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے "مکہ" کے علاقے میں جب کہ تمہیں ان کے مقابلے میں پورا دسترس عطا کر دیا تھا اور اللہ اس کا جو تم کرتے ہو، دیکھنے والا ہے


مکہ مکرمہ کے قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور تاریخی کتب میں مختلف صفات کے اعتبار سے کئی ناموں کا تذکرہ ملتاہے۔ ان میں اُم القری اور 'بکہ' تاریخ میں‌ زیادہ مشہورہیں۔ ان ناموں کے علاوہ مورخین کےمطابق تاریخ میں مکہ مکرمہ کےپچاس  سے زائد ناموں کا تذکرہ ملتاہے ۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو ’ام القریٰ‘ کہا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے
وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا.
اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ (اولاً) سب (انسانی) بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور (ثانیاً ساری دنیا میں) اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں۔
الانعام، 6: 92


اس شہربا عظمت کا نام ام القُریٰ ہونے کی کچھ  وجوہات جوعلمائے کرام نے ذکر فرمائی ہیں :
1۔یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے بقیہ زمین کو پھیلایا گیا جدید وقدیم تحقیقات کی رو سے یہ خشک زمین کے وسط میں واقع ہے اور کعبہ مشرفہ زمین کا مرکز ہے۔
  ۔ 2۔قدیم ترین شہر ہونے کی وجہ سے ام القُریٰ یعنی بستیوں کی ماں کہا گیا ہے
۔ 3۔ چونکہ یہ قبلہ ہے سارے عالم کے مسلمانوں کا اس لئے نماز پڑھتے وقت سب اپنا رخ مکہ مکرمہ کی طرف کرتے ہیں ،" اُم " کے معنی قصد کرنے اور رُخ کرنے کے بھی آئےہیں
 4۔ اس کا مقام و مرتبہ دوسری بستیوں کے مقابل ویسے ہی بلند و بالا ہے جس طرح ماں کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے


سعودی حکومت کی مکہ مکرمہ میں خدمات
سرزمین حجاز میں سعودی عرب کے قیام کے بعد ہر آنے والے حکمران نے مکہ مکرمہ کو خصوصی اہمیت دی اورغیرمعمولی ترقیاتی سرگرمیوں کا سفر جاری رکھاجس کی وجہ سے آج مکہ مکرمہ ایک انتہائی جدید شہر بن چکا ہے۔

 مکہ مکرمہ کی تعمیر وترقی کا ایک پہلو حجاج اور معتمرین کے لیے سہولیات سے وابستہ ہے۔ ہرسعودی حکومت نے اللہ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے بساط سے بڑھ کر کام کیا۔ اسی خدمت کے صلے میں سعودی حکمران 'خادم الحرمین الشریفین' کے لقب سے پکارے جاتےہے۔

انسانوں کے سب سے بڑے جم غفیر اور انسانی اجتماع کے حوالے سےبھی دنیا کا کوئی شہر مکہ مکرمہ کا ہم پلہ نہیں۔ ہرسال لاکھوں‌ فرزندان توحید حج اورعمرہ  ادا کرنےکے لیےمکہ مکرمہ میں‌جمع ہوتے ہیں اور سعودی حکومت کی جانب سے ان کو بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔


 اللہ حافظ