//////////////////

UNDER CONSTRUCTION

LightBlog
hajj لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
hajj لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 20 دسمبر، 2020

ذکر الہی کی فضیلت

دسمبر 20, 2020 0


حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ

 رسول اللہ نے فرمایا

جب بھی لوگ اﷲ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں

1۔ توفرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں۔

2۔اوراللہ کی رحمت ان پرچھا جاتی ہے۔

3۔سکون اور اطمینان ان پرنازل ہوتا ہے۔

 اور اللہ تعالی ان کا ذکر اپنے ہاں فرشتوں میں کرتا ہے۔

صحيح مسلم حدیث نمبر 2700،سنن نسائی حدیث نمبر 3378


منگل، 13 اکتوبر، 2020

مکہ مکرمہ کی عظمت اور فضیلت

اکتوبر 13, 2020 0

مکہ مکرمہ کی عظمت اور فضیلت 

The Greatness and Virtue of Makkah


آج کی وڈیو میں ہم مکہ مکرمہ کی فضیلت اور عظمت قران پاک اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں بیان کریں گے۔

اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے،اور بعض کو بعض پر فضیلت دی اور ان میں سے چند کو پسند بھی فرمایاہے۔

اللہ تعالی قران پاک میں فرماتاہے

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَـهُـمُ الْخِيَـرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللّـٰهِ وَتَعَالٰى عَمَّا يُشْرِكُـوْنَ 

 (سورۃ القصص، آیت 68) 

اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرتاہے، ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں ، اللہ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔

ہمارےاسلامی چینل ایم کے انفو ٹئم کو سبسکرائب ،لائک اور شیئر کریں۔ 

  چینل پراسلامی تعلیمات باقاعدہ قرآن پاک، حدیث شریف، تاریخی کتب اور دیگر مستند حوالہ جات کے ساتھ شئیر کی جاتی ہیں۔

https://www.youtube.com/mkinfotime


 اللہ تعالی نے مختلف جگہوں، شخصیات، اعمال ، مہینوں اور دنوں کو ایک دوسرے پر فضیلت سے عطا کی ہے۔

1- حضرت محمد ﷺ اللہ تعالی کے سب سے محبوب پیغمبر ہیں۔

2-اعمال میں افضل ترین عمل اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کر کے صرف اسی کی عبادت  کرنا ہے۔

3- مہینوں میں افضل ترین مہینہ رمضان ہے۔

4- راتوں میں افضل ترین رات لیلۃ القدر ہے۔

5- دنوں میں افضل ترین  دن قربانی کا دن ہے۔

5-جبکہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے اچھی اور محبوب ترین جگہ مکہ مکرمہ ہے،

مکہ مکرمہ  پوری کائناتِ میں سب سے زیادہ بابرکت اور رحمتوں والا مقام ہے جسے اﷲتعالیٰ نے دنیا بھر کے شہروں سے بڑھ کر اعلیٰ و مقدس شہر کی حیثیت عطا فرمائی ہے۔

:مکہ مکرمہ کی فضیلت، عظمت اور تاریخی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہےکہ

 

مکہ مکرمہ کی حرمت

اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے وقت سے  ہی حرمت والا بنایا اور اس پاکیزہ شہر کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا  جو پوری دنیاکے مسلمانوں کا قبلہ ہےاور دن میں پانچ با راس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے 

کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

بے شک اللہ تعالی نے اس شہر (مکہ) کو  آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے دن ہی سے  حرمت والا قرار دے دیا تھا، پس یہ شہر قیامت تک کیلیے اللہ تعالی کی جانب سے حرمت والا ہے

(صحیح بخاری)

 

اللہ کی قسم

 وہ عظیم الشان شہر ہے جس کی عظمت اور فضلیت کی خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں قسم کھائی ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ(1) وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ(2)

(سورہ البلد، آیت 1،2)

میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں(اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں


قران پاک میں مکہ مکرمہ کی شان میں آیات  کانزول 

مکہ مکرمہ  کی شان میں  اللہ تعالی نے قران پاک میں کثیر تعداد میں آیات نازل فرمائی ہیں اور اس مقدس شہر کا ذکر مختلف ناموں جیسے مکہ، بکہ، البلد، البدالامین، ام القریٰ، معاد اور المسجدالحرام سے کیا ہے۔

 

مکہ مکرمہ  کو اللہ تعالی نے حضور پاک ﷺ کے لیے پسندفرمایا

مکہ مکرمہ  کو اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب خاتم النبیں حضرت محمد ﷺ کیلیے پسند فرمایا۔

1۔ اسی مبارک شہر میں آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی ۔

2۔اسی مبارک شہر میں آپ ﷺ کی پرورش ہوئی۔

2۔ اسی مقدس شہر میں آپ ﷺ کو منصب نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔

3۔اسی مبارک شہر میں آپ ﷺ پرقرآن پاک کی صورت وحی الٰہی کے نزول کا آغاز ہوا ۔

4۔آپ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کی 53 بہاریں اسی شہرمیں گزاریں۔

5۔اسی شہر سے آپ ﷺ نے  توحید و سنت کی شمع روشن کی اور اسلام کی دعوت پھیلی ۔

6۔اسی شہر سے آپ ﷺ کومسجداقصی اور پھر سفر معراج پرلے جایا گیا۔

 

بہترین جگہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ مکرمہ کی سرزمین کودنیاکی سب سے بہترین جگہ قرار دیا۔آپﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت مکہ کے مقام و مرتبہ کا جو ذکر فرمایا، اس سے مکہ کی فضیلت خوب عیاں ہوتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی الله تعالی عنہ سے  روایت ہے کہ

میں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حزورہ پر کھڑے ہوئے (مکہ کی نسبت) فرما رہے تھے کہ

اللہ کی قسم! تو اللہ کی زمین کا سب سے بہتر قطعہ ہےاور تو اللہ کے نزدیک اللہ کی زمین کا سب سے محبوب حصہ ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔

(ترمذی، ابن ماجہ)

" حزورہ " مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔


مکہ مکرمہ میں نماز کے اجر و ثواب کی زیادتی

مکہ مکرمہ میں نماز کے اجر و ثواب کی زیادتی کے سلسلے میں تواتر سے احادیث آئی ہیں ۔ تقریباً 20 صحابہ کرامؓ سے حرم میں نماز کی فضیلت اور کئی گنا اجر و ثواب زیادہ پانے کی احادیث منقول ہیں جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح  مسلم کے علاوہ دیگر کئی کتب احادیث میں بھی موجود ہیں۔

اس شہر میں واقع مسجد حرام  میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز وں لے برابرہے ۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

جواپنے گھرمیں نمازپڑھے اسے پچیس نمازوں کاثواب ،جوجامع مسجدمیں نمازپڑھے اسے پانچ سونمازوں کاثواب ،جوجامع مسجداقصیٰ اورمیری مسجد(مسجدنبوی)میں نمازپڑھے اسے پچاس ہزارنمازوں کاثواب اور جومسجدحرام میں نمازپڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کاثواب ملتاہے۔(ابن ماجہ)


مکہ مکرمہ کے پانی آب زمزم کی اہمیت

اللہ تعالی نے اہل مکہ کو آب زمزم کا پانی مہیا فرمایااور پوری زمین پر ایسا پانی نہیں ہے، لوگ اس پانی کے قطروں کو بھی ترستے ہیں، یہ  بابرکت بھی ہے اور بھوکے شخص کیلیے کھانے کا متبادل بھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے

یہ با برکت پانی ہے اور کھانے والے کیلیے کھانا بھی ہے۔ (صحيح مسلم)

 

ایک اور مقام پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

زمزم کھانے والے کیلیے کھانا اور بیمار کیلیے شفا کا باعث ہے۔(صحيح مسلم)

نبی کریمﷺ کے سینے کو فرشتے حضرت جبریل علیہ السلام نے شق کر کے زمزم سے ہی دھویا تھا۔(صحيح بخاری)

 

دعاوں کی قبولیت کا مقام

مکہ مکرمہ میں ہر جگہ اَنوار و تجلیات کی برسات ہو رہی ہے ۔ اللہ تعالی کےکرم کا دروازہ کھلا رہتا ہےاور مانگنے والا کبھی محروم نہیں لوٹتا۔

ایسےبہت سےمقامات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ گناہ مٹتے ہیں ،خطائیں معاف ہوتی ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں۔

 وہ مقامات یہ ہیں۔

مَطاف ،  مُلتَزَم، مُسْتَجار، بیتُ اللّٰہ کے اَندر، میزابِ رَحمت کے نیچے، حَطِیْم، حَجرِاَسوَد،  رُکنِ یَمانی خُصوصاً جب دَورانِ طواف وہاں سے گزر ہو، مَقامِ اِبراہیم،  زَم زَم کے کنویں کے قریب ، صَفا ، مروہ ، مَسعٰی خُصوصاً سبز میلوں کے درمیان،  عَرَفات خُصوصاً موقِفِ نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک،  مزدَلِفہ خُصوصاً مَشْعَرُالحرام ، مِنٰی،  تینوں جَمرات کے قریب ، جب جب خانہ کعبہ پر نظر پڑے۔

 

مکہ مکرمہ کے سفر کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیاہے

مکہ مکرمہ دنیا کا واحد شہر ہے  جس کے سفر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر زیارت کے لیے فرض قرار دیا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

 تین مسجدوں کے سوا اور کسی کے لئے سفر نہ کیا جائے۔ایک مسجد حرام، دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد یعنی مسجد نبوی اور تیسرے مسجد اقصیٰ ۔

(صحيح بخاری: 1189)

 

مکہ مکرمہ میں مناسک حج کی ادائیگی

مکہ کی فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ حج کے سارے مناسک یہیں ادا کئے جاتے ہیں۔ مکہ کی زیارت عبادت میں شمار کی گئی ہے، جس سے آدمی کا مقام بلند ہوتا ہے اور اس کے گناہ مٹتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

جس نے حج کیا اور اس دوران بے ہودہ باتیں یا گناہ کے اعمال انجام نہ دیئے تو وہ حج کے بعد ایسا پاک وصاف ہوتا ہے گویا کہ اس کی ماں نے آج ہی اسے جنا ہو۔

(صحیح بخاری:۱۵۲۱،مسلم:۱۳۵۰)


مکہ مکرمہ میں جان و مال کی حرمت

نبی کریمﷺ نے جان ،  مال ، عزت آبرو کی حرمت کو مکہ مکرمہ کی حرمت سے تشبیہ دی؛ کیونکہ اس شہر کی عظمت اللہ تعالی کے ہاں بہت زیادہ ہے-

 آپ ﷺ کا فرمان ہے۔

تمہاری جان، مال اور عزت آبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے آج کے دن  کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔

 متفق علیہ

 

مکہ مکرمہ میں خون بہانا منع ہے

اس شہر کی حرمت میں یہ بھی شامل ہے کہ یہاں  نا حق خون بہانا دیگر  کسی بھی علاقے میں خون بہانے سے  کہیں ابتر ہے،

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔

اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی بھی شخص کیلیے یہاں  خون بہانا جائز نہیں ہے

 متفق علیہ(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

مکہ میں اسلحہ کی نمائش حرام ہے

مکہ کے لوگوں کو اسلحہ اٹھا کر خوفزدہ کرنا بھی جائز نہیں ہے-

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ

تم میں سے کسی کیلیے مکہ میں اسلحہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔

( صحیح مسلم)

 

حیوانات اور پرندوں کے لیے امن

مکہ مکرمہ میں اللہ تعالی نے حیوانات جبکہ پرندوں کو  یہاں کی فضا  میں بھی امن حاصل ہےاور ان کو شکا رنہیں کیا جا سکتا۔ مکہ کے درختوں کوبھی امن ہے انہیں کاٹا نہیں جاتا جبکہ یہاں گری پڑی چیز کو اٹھانا تک جائز نہیں ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ کا فرمان ہے

مکہ میں سبزہ نہیں کاٹا جائے گا، یہاں کے درخت نہیں کاٹے جائیں گے، یہاں پر شکار کو بھگایا نہیں جائے گا، اور گری پڑی چیز صرف اعلان کرنے والے کیلیے اٹھانا جائز ہے۔

 متفق علیہ

 

مکہ مکرمہ کی تعظیم میں عافیت ہے

حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ

 لوگ اس وقت تک عافیت سے رہیں گے جب تک حرم کے شایان شان اس کی تعظیم کرتے رہیں گے، اور جب اس کی حرمت کو پامال کریں گے تو پھر ہلاک ہوجائیں گے۔

(مسند احمد و ابن ماجہ)

 

دجال کو مکہ  اور مدینہ میں  داخل ہونے سے روک دیا جائے گا

قیامت کےقریب جب فتنوں کا ظہور ہوگاتو دجال  کافر کا خروج ہو گا۔ وہ لوگوں کو دینی اعتبار سے فتنے میں ڈال دے گا، ایسے میں فرشتے مکہ اور مدینہ کی حفاظت کریں گےاوراللہ تعالی دجال کو مکہ اور مدینہ میں داخل ہونے سے روک دے گا۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کوئی شہرایسانہیں جسے دجال نہ روندے سوائے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے ان کے راستوں میں سے ہرراستہ پرصف بستہ فرشتے حفاظت کررہے ہیں۔

( صحيح بخاری) 

 

مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنا منع ہے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ جیسے مقدس شہر سے نقل مکانی سے منع فرمایا ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن مکہ فتح کیا تو فرمایا کہ ہجرت باقی نہ رہی۔ لیکن جہاد اور نیت ہے۔

( صحيح بخاری)




جمعرات، 13 اگست، 2020

مکہ میں غیر مسلموں کا داخلہ کیوں منع ہے؟

اگست 13, 2020 0




مکہ میں غیر مسلموں کا داخلہ کیوں منع ہے؟

آج کی وڈیو میں ہم آپکو مکّہ مکرمہ کی حدودحرم میں غیر مسلموں کے داخلہ پر پابندی کی تمام تفصیلات اور اسکے پس منظر سے آگاہ کریں گے۔
ہم آپکو بتائیں گے کہ
مکہ مکرمہ کی حدود حرم میں غیر مسلموں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟
غیر مسلموں کے داخلے پریہ پابندی کب اور کس کے کہنے پر لگا ئی گئی تھی ؟
آخر اس پابندی کولگانے کی وجوہات کیا تھیں؟
مسلمانوں کے پہلے امیر الحج کون تھے۔
سورہ توبہ کے نزول کے بعد اللہ تعالی کے حکم کو قوم تک پہنچانے کے لیے کنہیں اور کیوںمنتخب کیا گیا؟



ہمارےاسلامی چینل ایم کے انفو ٹئم کو سبسکرائب ،لائک اور شیئر کریں۔ 

  چینل پراسلامی تعلیمات باقاعدہ قرآن پاک، حدیث شریف، تاریخی کتب اور دیگر مستند حوالہ جات کے ساتھ شئیر کی جاتی ہیں۔

https://www.youtube.com/mkinfotime

جمعرات، 4 جون، 2020

مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات - Historical places of Makkah

جون 04, 2020 0

مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات

Makkah and its holy places



سعودی عرب کی وادیٰ حجاز میں واقع شہر مکہ مکرمہ روئے زمین پر موجود سب سےزیادہ مقدس ،  معزّز ترین اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔دنیا بھر سے مسلمان   سارا سال  عمرہ اور حج بیت اللہ کی ادائیگی کے لیے اس شہر کارخ کرتے ہیں اور ساتھ ہیمکہ مکرمہ  کے تاریخی مقامات کی زیارت کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس بلاگ میں میں آپ کو مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات کے کچھ تفصیلات بتاؤں گا۔

اس مقدس شہر کو تین جلیل القدر نبیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت حضورپاکﷺ سے نسبت کا شرف حاصل ہے۔
نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور بعثت کا شرف عظیم بھی اس شہرکو حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی 53 بہاریں اسی شہر میں گزاریں۔۔

مکہ مکرمہ کی عظمت اور تاریخی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ خالق کائنات نے اس پاکیزہ شہر کو اپنے مقدس گھر خانہ کعبہ کے لیے منتخب فرمایا اور پھر یہاں حج کرنے کا حکم دیا۔

اللہ تعالی قران پاک میں فرماتا ہے۔
oوَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
(البقرة، 2 : 125)
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں او راعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔

مسلمان روحانی مرکز ہونے کے ناتے اس مقدس سرزمین سے دلی اورجذباتی لگاؤرکھتے ہیں اورزندگی میں کم از کم ایک بار حج بیت اللہ کی شدید خواہش رکھتے ہیں اورجب بلاوہ آ جائےتواہل ایمان دنیاوی زیب و زینت چھوڑ کرفقط سفید احرام میں ملبوس عاجزی وانکساری کی تصویر بن  کر اس ارض پاک کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں ۔ہر سال دنیا بھرسے  لاکھوں مسلمان رنگ و نسل کی تفریق کےبغیر حج بیت اللہ ادا کرنےکی سعادت حاصل کرتے ہیں جواسلام کے بنیادی ارکان میں شامل اہم ترین عبادت ہے۔

مکہ مکرمہ میں اﷲتعالیٰ کی واضح اور کھلی نشانیاں آج بھی موجود ہیں ۔

خانہ کعبہ
خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔دنیاکے تمام مسلمان دن میں پانچ با راس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ جبکہ خانہ کعبہ میں ادا کی جانے والی ایک نماز اپنے دامن میں ایک لاکھ نماز وں کا اجر و ثواب رکھتی ہے۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے
میری مسجد میں نماز ادا کرنامسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد کی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے۔ اور مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا کسی دوسری مسجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
صحيح ابن ماجه:1163

صفا و مروہ 
صفا مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کرتی رہیں۔اللہ تعالی کو آپ کی یہ جستجو اتنی پسند آئی کہ اسے حج وو عمرہ کا لازمی جزو بنا دیا۔حرم کی توسیع کے بعد اب یہ دونوں پہاڑیاں مسجد حرام کا حصہ بن گئی ہیں۔
صفا پہاڑی کا کعبہ سے فاصلہ  100 میٹر/328 فٹ جبکہ مروہ پہاڑی کا  فاصلہ  330 میٹر/1083 فٹ ہے۔صفا و مروہ کادرمیانی فاصلہ450 میٹر /1476فٹ ہے۔ 

حجاج کرام صفا و مروہ کے درمیان سعی  میں سات چکر لگاتے ہیں۔صفا سے مروہ تک جانے کو ایک چکر کہتے ہیں اور پھر مروہ سے صفا تک آنے کو دوسرا چکر۔  اسی طرح ساتواں چکر مروہ پرختم ہو گایوںسعی کا مجموعی فاصلہ3۔15  بنتاہے۔


 آب زم زم کا کنواں
یہیں آب زم زم کا کنواں ہے جس کا پانی سارے جہاں کے پانیوں سے افضل اور مبارک ہے۔آب زمزم میں امراض سے شفا یابی کی قوت پائی جاتی ہے۔ ، یہ جسم سے زہریلے موادکوخارج کرتے ہوئےقوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے ، اس میں کیلشیم اور میگیشیم کی مطلوبہ مقدار موجودہوتی ہے۔ فلورائڈز کی موجودگی کی وجہ سے قدرتی طور پر یہ جراثیم کُش ہے۔
یعنی سرخ خلیے بڑھاتا ہے۔ (RBCs) یعنی سفید خلیے اور(WBCs) خون میں
آب زم زمکاکنواں کعبہ شریف سے 20 میٹر دور ی پر واقع ہے جبکہ اس کی  گہرائی 30 میٹر ہے۔



حجر اسود
حجر اسود جنت کا وہ پتھر ہے جو کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار میں 1.10میٹر کی بلندی پرنصب ہے۔اسے چومنا یا ہاہاتھ لگانا ہر مسلمان اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے ۔ یہ جنتی پتھر حضرت جبرائیل نے اسوقت لا کر دیا تھا۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ اسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا ۔
606 ءمیں جب رسول اللہ ﷺکی عمر35 سال تھی قریش نے خانہ کعبہ کی دوبارہ  تعمیر کی ۔ جب حجر اسود کو دیوار کعبہ میں نصب کرنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑے کی نوبت آ گئی۔ اس موقع پررسول اللہ ﷺنے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں حجر اسود کو رکھا جانا تھا تو آپ ﷺنے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔

دوران طواف ہر چکر میں حجراسود کو بوسہ دینا لازمی ہےلیکن اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے استلام کیاجاسکتا ہے۔


مقام ابراہیم
مقام ابراہیم وہ پتھر ہےجس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھائی تھیں اوراس پر آپ کے قدموں کے نشانات پڑگئے تھے۔یہ پتھرآج بھی خانہ کعبہ کے مشرقی  جانب تقریبا سوا 13 میٹر کے فاصلے پر پیتل کےخول میں  موجود ہےاور ہر طواف کے 
بعد حجاج کے لیےیہاں دو نوافل پڑھنا لازمی ہیں۔


ملتزم 
ملتزم حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان مشرقی دیوار کا تقریباً دو میٹر طویل حصہ ہے۔بیت اللہ کے وہ مقامات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں ملتزم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حجاج یہاں پر آ کر اپنا سينہ ، چہرہ ، بازو اور ہتھيلياں رکھ کر اللہ تعالی کے حضور گڑگڑا کر دعائیں  کرتے ہیں۔


جبل نور 
مقدس اور مبارک پہاڑ جبل نور اسی شہر میں واقع ہے اس پہاڑ کی چوٹی پرموجود غار حرا میں رسول اللہ ﷺا ِعلانِ نبوت سے قبل ذِکروفِکر اور عِبادت میں مشغول رہا کرتے ۔

اس غار میں 21 رمضان المبارک بروز پیر بمطابق  10 اگست 610؁ عیسوی کو جب آپ ﷺکی عمرمبار ک 40 سال 6 ماہ اور 12 دن ہو ئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر  پہلی وحی لے کرنزول ہوئےجس کے ذریعے اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کو نبی آخر الزماں 
مبعوث فرمایا۔

جبل نور شمال مشرق میں مسجد حرام سے  ساڑھےتین کلومیٹرکے فاصلےپر سطح سمندر سے 642میٹر بلند ی پرواقع ہے۔جبکہ غار حرا3.7میٹر /12 فٹ لمبا اور 1.6میٹر / 5.2انچ چوڑا ہے۔ 

غار حراجبلِ نور کےقبلہ رُخ پر زمین کی سطح سے639 میٹر /2100 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔غار حرا تک پہنچنے کے لیے 1750 سیڑھیاں عبور کرنی پڑتی ہیں۔


جنت المعلی
دنیا کا دوسرا مقدس ترین اور تاریخی قبرستان 'جنت المعلی'اس شہرمیں ہے ۔ جہاں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ داروں ،صحابہ کرام ،تابعین ، تبع تابعین ،اولیاء اورصالحین کے مزارات مقدسہ ہیں۔ یہ قبرستان بیت اللہ شریف کے مغربی جانب تقریبا ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

مکہ مکرمہ اور اللہ تعالی کی قسم
مکہ مکرمہ کی عظمت اور فضلیت کااندازہ اس سےبھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے  قرآن پاک کی کئی آیات میں اس مقدس شہرکا ذکر آیا ہے ۔جبکہ دو  مقامات پر اس مقدس شہر کی اللہ تعالی نےقسم کھائی ہے۔

سورۃالبلد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَآ اُقْسِمُ بِـهٰذَا الْبَلَدِ (1)  وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِ (2) 
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں، (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ ﷺ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔‘‘

سورۃ التین میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ (1) وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ (2) وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ (3)
قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی


محل وقوع
مکہ مکرمہ سطح سمندر سے قریباً 300میٹر بلند ی پر بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر دوروادی فاران میں واقع ہے جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ 430کلومیٹر جنوب کی جانب ہے، جبکہ یہ جدہ ائر پورٹ سے مشرق کی طرف 73کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔اس کے مغربی جانب جبل قُعیقعان، جنوب میں جبل کُدَیّ  جبکہ جنوب مشرق میں جبل ثور واقع ہیں۔مکہ مکرمہ کے شمال مغرب میں جبل اَلحَجُون واقع ہے جس کی کداَئی نامی گھاٹی کی طرف سےنبیﷺ فتح مکہ کے وقت شہر میں داخل ہوئے۔شمال مشرق میں جبل نورسطح سمندر سے 642میٹر بلند ی پر واقع ہے۔ مشرق میں مسجد الحرام کے قریب ترین420میٹر بلند جبل ابو قبیس اور اس کے پیچھے کوہ خندمہ موجودہیں۔

مکہ کے مشرق میں شعب علی جسےشعب ابی طالب بھی کیا جاتاہے موجودہے۔یہ ’’عقبہ‘‘ کے راستے مکہ سے ملی ہوئی ہے۔ اسے دورِ جاہلیت میں شعب بنی ہاشم کہا جاتا تھا۔ یہ گھاٹی عہدِ نبوی میں شعب ابی طالب اور آج کل شعبِ علی کہلاتی ہے۔وادیٔ مکہ کے جنوبی علاقے کو بطحاقریش یا صرف بطحا کہا جاتا ہے۔ حرم سے نیچے کی نشیبی آبادی مِسفلہ جبکہ بالائی علاقے کو معلاۃ یا المعلیٰ کہا جاتا ہے۔



مکہ مکرمہ کا اصل نام
مکہ مکرمہ کا اصل نام "مکہ" ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آتاہے
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيراً
سورۃ فتح آیت24
 اور وہ وہی ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو روک دیا تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے "مکہ" کے علاقے میں جب کہ تمہیں ان کے مقابلے میں پورا دسترس عطا کر دیا تھا اور اللہ اس کا جو تم کرتے ہو، دیکھنے والا ہے


مکہ مکرمہ کے قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور تاریخی کتب میں مختلف صفات کے اعتبار سے کئی ناموں کا تذکرہ ملتاہے۔ ان میں اُم القری اور 'بکہ' تاریخ میں‌ زیادہ مشہورہیں۔ ان ناموں کے علاوہ مورخین کےمطابق تاریخ میں مکہ مکرمہ کےپچاس  سے زائد ناموں کا تذکرہ ملتاہے ۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو ’ام القریٰ‘ کہا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے
وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا.
اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ (اولاً) سب (انسانی) بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور (ثانیاً ساری دنیا میں) اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں۔
الانعام، 6: 92


اس شہربا عظمت کا نام ام القُریٰ ہونے کی کچھ  وجوہات جوعلمائے کرام نے ذکر فرمائی ہیں :
1۔یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے بقیہ زمین کو پھیلایا گیا جدید وقدیم تحقیقات کی رو سے یہ خشک زمین کے وسط میں واقع ہے اور کعبہ مشرفہ زمین کا مرکز ہے۔
  ۔ 2۔قدیم ترین شہر ہونے کی وجہ سے ام القُریٰ یعنی بستیوں کی ماں کہا گیا ہے
۔ 3۔ چونکہ یہ قبلہ ہے سارے عالم کے مسلمانوں کا اس لئے نماز پڑھتے وقت سب اپنا رخ مکہ مکرمہ کی طرف کرتے ہیں ،" اُم " کے معنی قصد کرنے اور رُخ کرنے کے بھی آئےہیں
 4۔ اس کا مقام و مرتبہ دوسری بستیوں کے مقابل ویسے ہی بلند و بالا ہے جس طرح ماں کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے


سعودی حکومت کی مکہ مکرمہ میں خدمات
سرزمین حجاز میں سعودی عرب کے قیام کے بعد ہر آنے والے حکمران نے مکہ مکرمہ کو خصوصی اہمیت دی اورغیرمعمولی ترقیاتی سرگرمیوں کا سفر جاری رکھاجس کی وجہ سے آج مکہ مکرمہ ایک انتہائی جدید شہر بن چکا ہے۔

 مکہ مکرمہ کی تعمیر وترقی کا ایک پہلو حجاج اور معتمرین کے لیے سہولیات سے وابستہ ہے۔ ہرسعودی حکومت نے اللہ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے بساط سے بڑھ کر کام کیا۔ اسی خدمت کے صلے میں سعودی حکمران 'خادم الحرمین الشریفین' کے لقب سے پکارے جاتےہے۔

انسانوں کے سب سے بڑے جم غفیر اور انسانی اجتماع کے حوالے سےبھی دنیا کا کوئی شہر مکہ مکرمہ کا ہم پلہ نہیں۔ ہرسال لاکھوں‌ فرزندان توحید حج اورعمرہ  ادا کرنےکے لیےمکہ مکرمہ میں‌جمع ہوتے ہیں اور سعودی حکومت کی جانب سے ان کو بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔


 اللہ حافظ