//////////////////

UNDER CONSTRUCTION

LightBlog

جمعرات، 11 مارچ، 2021

شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون سےدو پیالے پیش کئے گئے؟

مارچ 11, 2021 1

حضرتابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معراج کی رات مقام ایلیا میں دو پیالے لائے گئے

ایک شراب کا اوردوسرا دودھ کا  

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پیالوں کی طرف دیکھا

پھر دودھ کو لے لیا

تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ

اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطرت کی ہدایت کی

اگر آپ شراب کا پیالہ لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی

صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ مشروبات کا بیان ۔ حدیث 553


بدھ، 10 فروری، 2021

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام

فروری 10, 2021 0


‏‏‏‏ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

آج کے دن تم میں سے کون روزہ دار ہے؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

آج کے دن تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

آج کے دن تم میں سے کس نے مسکین کو کھاناکھلایا؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

آج کے دن تم میں سے کس نے بیمار کی پرسش کی یعنی عیادت کی؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

جس میں یہ سب باتیں جمع ہوں وہ جنت میں جائے گا

صحيح مسلم, حدیث نمبر: 6182, 2374

پیر، 25 جنوری، 2021

جنت و جہنم کا بیان

جنوری 25, 2021 0


جنت و جہنم کا بیان

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

جب اہل جنت جنت میں چلے جائیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں چلے جائیں گے

 تو موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کر دیا جائے گا۔

 پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اے جنت والو!

 تمہیں اب موت نہیں آئے گی

اور اے دوزخ والو!

 تمہیں بھی اب موت نہیں آئے گی۔

اس بات سے جنتی اور زیادہ خوش ہو جائیں گے

 اور جہنمی اور زیادہ غمگین ہو جائیں گے


اتوار، 17 جنوری، 2021

مسلمان کےمسلمان پرحقوق

جنوری 17, 2021 0




مسلمان کےمسلمان پرحقوق

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایک مسلمان کےدوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:

1۔سلام کا جواب دینا

2۔دعوت قبول کرنا

3۔جنازوں کے پیچھے چلنا

4۔مریض کی بیمار پرسی کرنا

5۔اورچھینکنے والے کی چھینک کا جوب دینا، بشرطیکہ وہ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ) کہے

متفق علیہ


جمعرات، 7 جنوری، 2021

قرآن مجید میں مکہ مکرمہ کے نام

جنوری 07, 2021 0


بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ تعالیٰ نے مکہ  مکرمہکو دنیا کے باقی تمام شہروں پر فضیلت عطا فرمائی ہےجس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس شہرکا ذکر قران پاک میں کئی بار  مختلف ناموں سےکیا ہے۔

آج کی وڈیو میں ہم قران پاک کی  آیات اور ان میں آنے والے مکہ  مکرمہ کے ناموں میں سے کچھ کا ذکر کریں گے۔ تو  آئیے شروع کرتے ہیں۔

 

بکہ

سورۃآل عمران  قرآن پاک میں دوسرے نمبر پر آتی  ہے۔یہ مدنی سورت ہے- اس کے 20 رکوع اور 200 آیات ہیں۔

سورۃآل عمران   کی آیت نمبر 96 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’بکہ‘‘ کے نام  سے کیا ہے۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّـذِىْ بِبَكَّـةَ مُبَارَكًا وَّهُدًى لِّلْعَالَمِيْنَ (آیت 96)

بے شک (اللہ کا) پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو بکہ میں ہے، وہ تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے.

 

اس آیت میں اللہ تعالی نے  یہود یوں کے اعتراض کا جواب دیاہے۔ وہ کہتے تھے کہ روئےزمین پر سب سے پہلا عبادت خانہ بیت المقدس  ہے۔اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم پرخانہ کعبہ کو قبلہ بنا لیا تو یہودی کہتے تھے کہ بیت المقدس خانہ کعبہ سے افضل ہے اور وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ نماز میں اس کی طرف منہ کیا جائے کیونکہ بیت المقدس کو کعبہ سے پہلے بنایا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انکے اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کے لیے اللہ کی عبادت کے واسطے جو سب سے پہلے گھر بنایا گیا وہ کعبہ ہے ۔ جو بکہ یعنی مکہ میں ہے سو کعبہ بیت المقدس سے افضل اور اشرف ہے ‘ لہذا نمازوں میں اس کی طرف منہ کرنا چاہیے۔

.

مکہ

سورۃفتح قرآن پاک میں 48ویں نمبر پر آتی  ہے۔یہ مدنی سورت ہے۔ اس کے 4 رکوع اور 29 آیات ہیں۔

سورۃفتح کی آیت نمبر 24 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’مکہ‘‘ کے نام  سے کیا ہے اور یہ نام قرآن پاک میں صرف ایک بار آیا ہے۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

وَهُوَ الَّـذِىْ كَفَّ اَيْدِيَـهُـمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْـهُـمْ بِبَطْنِ مَكَّـةَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْـهِـمْ ۚوَكَانَ اللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْـرًا(آیت:24)

اور وہی (اللہ) تو ہے جس نے وادی مکہ میں ان (کفار) کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے اس کے بعد اس نے تمہیں ان پر غالب کر دیا تھا،اور اللہ ان سب باتوں کو جو تم کر رہے تھے دیکھ رہا تھا۔

بطن مکہ سے مراد حدیبیہ ہے۔ یعنی حدیبیہ میں ہم نے تمہیں کفار سے اور کفار کو تم سے لڑنے سے روکا۔ یہ اللہ نے احسان کے طور ذکر فرمایا ہے۔

 

یہ صلح حدیبیہ  کا واقعہ ہے۔

جب نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اور صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالی اجمعین) حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے 80 آدمی جو ہتھیاروں سے لیس تھے اس نیت سے بھیجے کہ اگر انہیں موقع مل جائے تو دھوکے سے نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور صحابہ (رضوان اللہ تعالی اجمعین) کے خلاف کاروائی کریں چنانچہ یہ مسلح جتھہ جبل تنعیم کی طرف سے حدیبیہ میں آیا، جس کا علم مسلمانوں کو بھی ہوگیا اور انہوں نے ہمت کرکے ان تمام آدمیوں کوگرفتار کر لیا اور بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا۔ ان کا جرم تو شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا کہ پھر جنگ ناگزیر ہو جاتی۔ جب کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم اس موقعے پر جنگ کے بجائے صلح چاہتے تھے کیونکہ اسی میں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا۔

(صحيح مسلم، كتاب الجهاد، باب قول الله تعالى وهو الذي كف أيديهم عنكم)

 

 

اُم القریٰ

سورۃ      الانعام قرآن پاک میں چھٹے نمبر پر آتی  ہے۔یہ مکی سورت ہے۔ اس کے 20 رکوع اور 165 آیات ہیں۔سورۃ الانعام کی آیت نمبر 92 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ اُم القریٰ ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

وَهٰذَا كِتَابٌ اَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّـذِىْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَمَنْ حَوْلَـهَا ۚوَالَّـذِيْنَ يُؤْمِنُـوْنَ بِالْاٰخِرَةِ يُؤْمِنُـوْنَ بِهٖ ۖ وَهُـمْ عَلٰى صَلَاتِـهِـمْ يُحَافِظُوْنَ ۔

(آیت92)

اور یہ کتاب جسے ہم نے اتارا ہے برکت والی ہے ان (کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے تھیں اور تاکہ آپ (مکہ) اور اس کے آس پاس والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں۔اور جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہی اس پر ایمان لاتے ہیں، اور وہی اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔

 

ام القرُی سے مراد مکہ مکرمہ ہے ، اس شہربا عظمت کا نام ام القُریٰ ہونے کی چار وجوہ علمائے کرام نے ذکر کی ہیں :

1۔یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جیسے بقیہ زمین کو پھیلایا گیا جدید وقدیم تحقیقات کی رو سے یہ خشک زمین کے وسط میں واقع ہے اور کعبہ مشرفہ زمین کا مرکز ہے۔

۔ 2۔قدیم ترین شہر ہونے کی وجہ سے ام القُریٰ یعنی بستیوں کی ماؤں کہا گیا ہے

۔ 3۔ چونکہ یہ قبلہ ہے سارے عالم کے انسانوں کا اس لئے سب نماز تعلیم نمازوں میں اپنا رخ کرتے ہیں ،" اُم " کے معنی قصد کرنے اور رُخ کرنے کے بھی آئےہیں

4۔ اس کا مقام و مرتبہ دوسری بستیوں کے مقابل ویسے ہی بلند و بالا ہے جس طرح ماں کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے۔

 

وادی غير ذی زرع

سورۃ      ابراہیم قرآن پاک میں 14ویں نمبر پر آتی  ہے۔یہ مکی سورت ہے۔ اس کے 7 رکوع اور 52 آیات ہیں۔سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 37میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ وَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ ‘‘ کے نام  سے کیا ہے۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ

(آیت37)

اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد کو اس بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں

 

یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے جو آپ نے اس وقت کی تھی جب آپ حضرت حاجرہ علیہ السلام اورنومولود حضرت  اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حکم پر مکہ مکرمہ کی بےآب و گیاہ سرزمین پرچھوڑ کر واپس جا رہے تھے۔جہاں کوئی پرندہ بھی موجود نہیں تھا۔ اس جنگل اور بیابان کو آباد کرنا انتہائی دشوار تھااور بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ وہاں آبادی کی کوئی شکل نکالی جاتی۔ اللہ نے اپنی غیرمعمولی قدرت کی کرشمہ سازی سے کام لے کر ”وادیِ غیرذی زرع“ کو بسانے کا انتظام کردیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کیدعا کی تاثیر یہ ہے کہ مکہ جیسی بےآب و گیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں حج کے موقع پر بھی، جب لاکھوں افراد مزید وہاں پہنچ جاتے ہیں، پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی۔

 

البلد

سورۃ      البلد قرآن پاک میں 90 نمبر پر آتی  ہے۔یہ مکی سورت ہے۔ اس کا 1 رکوع اور 20 آیات ہیں۔سورۃ البلد کی پہلی آیت میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ البلد ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

لَآ اُقْسِمُ بِـهٰذَا الْبَلَدِ۔(آیت1)

اللہ تعالیٰ نے اس شہر (البلد) کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:’’میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی

 

اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اس وقت، جب سورت کا نزول ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جائے پیدائش بھی یہی شہر تھا۔ یعنی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد و مسکن کی قسم کھائی، جس سے اس کی عظمت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

 

البلد الامین

سورۃ      التین قرآن پاک میں 95 نمبر پر آتی  ہے۔یہ مکی سورت ہے۔ اس کا 1 رکوع اور کل 8 آیات ہیں۔سورۃ التین کی آیت نمبر 3 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ البلد الامین ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ (1) وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ (2) وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ (3)

قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی

 

بلد الا مین سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جس میں قتال کی اجازت نہیں ہےاور یہ شہر امن ہے۔

 

البلد ۃ

سورۃ      النمل قرآن پاک میں 27 نمبر پر آتی  ہے۔یہ مکی سورت ہے۔ اس کے 7 رکوع اور کل 93 آیات ہیں۔سورۃ النمل کی آیت نمبر 91 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ البلد ۃ ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

إِنَّمَآ أُمِرۡتُ أَنۡ أَعۡبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ ٱلۡبَلۡدَةِ ٱلَّذِي حَرَّمَهَا 

(آیت91)

مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں جس نے اسے حرمت وا بنایا ہے

 

اس سےمراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا۔ حرمت والا کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا، درخت کاٹنا حتیٰ کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے۔

(صحیح بخاري ، صحیح مسلم )

 

معاد

سورۃ      القصص قرآن پاک میں 28 نمبر پر آتی  ہے۔یہ مکی سورت ہے۔ اس کے 9 رکوع اور کل 88 آیات ہیں۔سورۃ القصص کی آیت نمبر 85 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ معاد ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

اِنَّ الَّـذِىْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۔(آیت85)

بیشک جس  اللہ نے آپ پر قرآن پاک  نازل فرمایا ہے وه آپ کو دوباره پہلی جگہ نے وا ہے

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ وہ فرماتے ہیں معاد سے مراد مکہ ہے کہ اللہ آپ کو مکہ واپس فرمادے گا۔

 

حرم امن

سورۃ القصص ہیکی آیت نمبر 57 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ حرم امن ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّـهُـمْ حَرَمًا اٰمِنًا ۔

(آیت57)

کیا ہم نے انہیں امن وامان اور حرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی

 

مکہ مکرمہ تاریخ کے ہر دور میں امن وامان کا گہوارہ رہا ہے باوجودیکہ اس شہر پر مختلف مذاہب کے پیروکاروں کی اجارہ داری رہی ہے مگر اس کی امن اور سلامتی کی ہر فرقہ نے پاسداری کی ہے - جب کبھی لوگ خوف سے دوچار ہوئے تو امن اور سلامتی کی فضا انہیں اسی حرم پاک میں میسرہوئی نیز اس حرمت والے شہر کی حرمت نہ صرف بنو آدم کے لئے ہے بلکہ حیوانات و نباتات بھی اس حرمت میں انسان کے شانہ بشانہ ہیں

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا :

اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت سے حرمت والا قرار دیا ہے جب سے آسمان اور زمین کو تخلیق بخشی اور یہ حرمت قیامت تک کیلئے ہے نہ کسی جھاڑ جھنکار کو کاٹنا جائے گا اور نہ کسی جانور کو پریشان کرنا

 

قریہ

سورۃ      النحل قرآن پاک میں 16ویں نمبر پر آتی  ہے۔یہ مکی سورت ہے۔ اس کے 16 رکوع اور کل 128 آیات ہیں۔سورۃ النحل کی آیت نمبر 112 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ قریہ ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

 

ارشاد باری تعالی ہے

وَضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّـةً يَّاْتِيْـهَا رِزْقُـهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَـفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّـٰهِ

فَاَذَاقَهَا اللّـٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُـوْا يَصْنَعُوْنَ ۔(آیت112)

اور اللہ ایک ایسی بستی (قریہ) کی مثال بیان فرماتا ہے جہاں ہر طرح کا امن چین تھا اس کی روزی با فراغت ہر جگہ سے چلی آتی تھی پھر اللہ کے احسانوں کی ناشکری کی پھر اللہ نے ان کے برے کاموں کے سبب سے جو وہ کیا کرتے تھے یہ مزہ چکھایا کہ ان پر فاقہ اور خوف چھا گیا۔

 

مفسرین نے اس قریہ (بستی) سے مراد مکہ لیا ہے۔ یہاں مکہ اور اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایسے قحط کی بد دعا دی

”اے اللہ مضر (قبیلے) پر اپنی سخت گرفت فرما اور ان پر اس طرح قحط سالی مسلط کر دے، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ہوئی“

چنانچہ اللہ تعالٰی نے مکے کے امن کو خوف سے اور خوشحالی کو بھوک سے بدل دیا۔ حتیٰ کہ ان کا یہ حال ہو گیا کہ ہڈیاں اور درختوں کے پتے کھا کر انہیں گزارہ کرنا پڑا

 (بخاري نمبر 4821)

 

البیت

سورۃ      الحج قرآن پاک میں 22 نمبر پر آتی  ہے۔یہ مدنی سورت ہے۔ اس کے 6 رکوع اور کل 99 آیات ہیں۔سورۃ الحج کی آیت نمبر 26 میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کا ذکر ’’ البیت ‘‘ کے نام  سے کیا ہے ۔

 

سورۃ الحج میں مکہ مکرمہ کو ’’البیت‘‘ کہا گیا ہے

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْـرَاهِيْـمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِىْ شَيْئًا وَّطَهِّرْ بَيْتِىَ لِلطَّـآئِفِيْنَ وَالْقَآئِمِيْنَ وَالرُّكَّـعِ السُّجُوْدِ۔ (آیت:26)

اور جب ہم نے مقرر کر دی ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیت  اللہ کی جگہ (اور اسے حکم دیا) کہ نہ تو شریک ٹھہرا میرے ساتھ کسی کو اور تو پاک کر میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجده کرنے والوں (کے لئے)

 

 

اور سورۂ قریش میں فرمایا گیا

فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِنْ جُوْعٍ وَاٰمَنَہُمْ مِنْ خَوْفٍ۔ (قریش: ۴)

پس انہیں چاہئے کہ وہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک کی حالت میں کھانے کو دیا اور انہیں بدامنی سے محفوظ رکھا۔